اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے
آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی
کوئی آنسو میرے دامن پہ بکھر جانے دے
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے ، مگر جانے دے
Apni Aankhon Ke Sumander Mein Utar Jaane Dey
Reviewed by
akbar khan
on
November 29, 2014
Rating:
5