SAWAL YE TO NAI K LAKRI JAL RAHI HAY KOI
غزل
سوال یہ تو نہیں لکڑی جل رہی ہے کوئی
سوال یہ ہے کہ کیا گیلی جل رہی ہے کوئی
میرا کلام کئی مرحلوں میں جلتا ہے
ابھی تو بات وُہی پہلی جل رہی ہے کوئی
میں جل رہا ہوں مگر اس قدر سُکون سے کیوں
بدی کے ساتھ میری نیکی جل رہی ہے کوئی
یہ موجِ عشق لپٹ کر جلا رہی ہے مُجھے
کہ راہ میں پڑی پگڈنڈی جل رہی ہے کوئی
مہک رہی ہے کوئی یاد گُفتگو کی طرح
سُلگ سُلگ کے “اگر بتی ” جل رہی ہے کوئی
تو کیا میں ہاتھ سے بھی سُورۂ جمیل پڑھوں
مری نگاہ میں کیا دھیمی جل رہی ہے کوئی
پتہ چلا ہے کہ تُم خوش نہیں تعلق میں
تُمھاری اُنگلی میں انگوٹھی جل رہی ہے کوئی
شاعر: رفیع رضا
سوال یہ تو نہیں لکڑی جل رہی ہے کوئی
سوال یہ ہے کہ کیا گیلی جل رہی ہے کوئی
میرا کلام کئی مرحلوں میں جلتا ہے
ابھی تو بات وُہی پہلی جل رہی ہے کوئی
میں جل رہا ہوں مگر اس قدر سُکون سے کیوں
بدی کے ساتھ میری نیکی جل رہی ہے کوئی
یہ موجِ عشق لپٹ کر جلا رہی ہے مُجھے
کہ راہ میں پڑی پگڈنڈی جل رہی ہے کوئی
مہک رہی ہے کوئی یاد گُفتگو کی طرح
سُلگ سُلگ کے “اگر بتی ” جل رہی ہے کوئی
تو کیا میں ہاتھ سے بھی سُورۂ جمیل پڑھوں
مری نگاہ میں کیا دھیمی جل رہی ہے کوئی
پتہ چلا ہے کہ تُم خوش نہیں تعلق میں
تُمھاری اُنگلی میں انگوٹھی جل رہی ہے کوئی
شاعر: رفیع رضا